5 December 2025
۱۴۰۴/۰۹/۰۷- ۰۸:۲۰

(16 نومبر 2025) اسلامی جمہوریہ ایران کے محترم وزیرِ خارجہ کا بین الاقوامی قانون زیرِ حملہ: جارحیت اور دفاع کے عنوان سے بین الاقوامی‌کانفرنس میں خ

(16 نومبر 2025) اسلامی جمہوریہ ایران کے محترم وزیرِ خارجہ کا بین الاقوامی قانون زیرِ حملہ: جارحیت اور دفاع کے عنوان سے بین الاقوامی‌کانفرنس میں خطاب

 

 (16 نومبر 2025) اسلامی جمہوریہ ایران کے محترم وزیرِ خارجہ کا " بین الاقوامی قانون زیرِ حملہ: جارحیت اور دفاع"  کے عنوان سے بین الاقوامی‌کانفرنس میں خطاب

معزز ماہرین اور دانشوران،
خواتین و حضرات!

میں آپ سب کو تہران اور وزارتِ خارجۂ اسلامی جمہوریہ ایران کے ادارہ برائے سیاسی و بین الاقوامی مطالعات میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ مجھے نہایت خوشی ہے کہ آج مجهے اس نہایت اہم موضوع پر « بین الاقوامی قانون حملوں کی زد میں»   ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت اور تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔

محترم مہمانانِ گرامی!

اقوامِ متحدہ کے قیام کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر، جبکہ توقع کی جا رہی تھی کہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں اور بنیادوں پر پہلے سے بڑھ کر عمل کیا جائے گا - جو کہ آفاقی اقدار اور بین الاقوامی‌برادری کی دیرینہ کامیابیاں ہیں  بدقسمتی سے ہم دیکھـ رہے ہیں کہ نظرثانی پسند طاقتوں کی جانب سے ان اصولوں پر بھرپور حملہ  کیا جا رہا ہے۔

آج ہم ایک ایسی حقیقت کے سامنے کھڑے ہیں جس پر اب آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی اس کے بارے میں خاموشی اختیار کی جا سکتی ہے: بین الاقوامی قانون شدید حملوں کی زد میں ہے۔ دنیا گہرے چیلنجوں، تشویش ناک رجحانات اور مختلف سطحوں پر بے مثال اسٹریٹجک تبدیلیوں سے دوچار ہے۔

بین الاقوامی قانون کی بنیادی ستونوں کو اُن طاقتوں کی جانب سے بے مثال حملوں کا سامنا ہے جن سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ ہمیشہ کی طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد تشکیل پانے والے بین الاقوامی نظم کے معمار اور محافظ ہوں گے۔ حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد وجود میں آنے والا معروف ضابطہ جاتی ڈھانچہ اس قدر شدید انتشار کا شکار ہو چکا ہے کہ جہاں “جنگ و تشدد” ایک استثناء ہونا چاہیے تھا اور “امن و ہمزیستی” ایک اصول، وہاں اب صورتِ حال الٹ چکی ہے۔ تشدد اور جنگ بین الاقوامی تعلقات میں ایک نیا معمول بن چکا ہے اور فوجی طاقت کے استعمال کو بعض ممالک نے اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کا باقاعدہ طریقہ کار بنا لیا ہے۔

موجودہ صورتحال اُن بین الاقوامی قانون مخالف، رجحانات کا ثمرہ ہے جو حالیہ برسوں میں بدقسمتی سے امریکہ اور اس کے بعض اتحادی ممالک کی جانب سے مغرب  محور نظم کے حق میں اس نعرے کے تحت آگے بڑھائے گئے تاکہ قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظم (rules based international order)”،قانون پر مبنی بین الاقوامی نظم (law based international order)” کو عملاً کمزور کیا جا سکے۔

درحقیقت، یہ قواعد پر مبنی نظم مغربی ممالک کی نیتوں، مفادات، وقتی مقاصد اور موسمی ترجیحات کے مطابق اور زیادہ تر بین الاقوامی قانون کے خلاف  اس طرح سے تشریح و تعبیر کیا گیا ہے کہ وہ امریکہ اور مغرب کی طاقت پرستانہ بالادستی کے لیے ایک انتہائی انتخابی اور سودمند آلہ بن کر رہ گیا ہے۔

بدقسمتی سے بین الاقوامی‌شخصیاتِ عالی مقام اور مختلف ممالک، خصوصاً عالمی جنوب کی جانب سے دی جانے والی بے شمار تنبیہات اور انتباہات جن میں عالمگیریت، مساوات، اور زور و امتیاز کے خاتمے پر مبنی بین الاقوامی قانون کی طرف واپسی کی ضرورت پر زور دیا گیا،  کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ یہاں تک کہ آج قواعد پر مبنی نظم کی بات بھی کم ہو گئی ہے اور عملاً ہم دیکھـ رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے بعض اتحادی ایک "زور پر مبنی بین الاقوامی نظم (force based   international order)" کی تشکیل کے درپے ہیں۔

معزز اساتذہ اور محققین!

امریکہ کے صدر “ طاقت کے ذریعے امن” کے نظریے کے ساتھـ وائٹ ہاؤس آئے۔ زیادہ دیر نہ گزری یہ واضح ہو گیا کہ یہ نظریہ دراصل ایک نئے عملی فریم ورک کا رمز اور پردہ پوش تھا:  زور کے ذریعے ہژمونی وہ بھی کھلی، عریان طاقت۔

آج امریکی حکام جو کچھـ بار بار اور بلا جھجک کہہ رہے ہیں، وہ اس حقیقت کے بارے میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں چھوڑتے۔ امریکی صدر صاف الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ امریکہ اب معتبر سیاسی ملاحظات یا بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہ کر عمل نہیں کرنا چاہتا بلکہ صرف "جیتنا" چاہتا ہے۔ یہ ایک ہژمونی پسند امریکی منشور ہے، جو عملاً جنگل کے قانون کی طرف واپسی ہے۔

اس منشور میں وزیر دفاع، وزیر جنگ بن جاتا ہے؛ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ ایجنڈے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ وہ صدر جو خود کو “امن کا صدر” کہتا ہے، من مانی کرتے ہوئے اور بغیر کسی وجہ یا جواز کے جہاں چاہے حملہ کرتا ہے، شہروں کو خالی کرانے کا حکم دیتا ہے، بغیر قید و شرط تسلیم چاہتا ہے، اور تمام بین الاقوامی قوانین یہاں تک کہ اپنے سابقه صدور کے معاہدات اور تعہدات تک کو پامال اور بے اثر کر دیتا ہے۔

یہ کھلی اور بے لگام طاقت کے استعمال اور بین الاقوامی قوانین کی بنیادوں پر مسلسل حملوں کا سلسلہ اگر یہ جنگل کا قانون نہیں تو پھر کیا ہے؟ ہر زاویے سے دیکھا جائے تو یہ راستہ یقیناً نہ جاری رہ سکتا ہے اور نہ ہی رہنا چاہیے۔

تازہ ترین اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کا فوجی بجٹ بے مثال طور پر 3 ٹریلین ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں کی سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ صرف سال 2024 میں اوسطاً 7 فیصد حکومتی بجٹ فوجی مقاصد پر خرچ ہوا، جبکہ 2025 کے لیے یہ اندازہ کم از کم 10 فیصد ہے۔ یہ اضافہ دنیا کے تمام خطوں میں دیکھا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ ایک ہی ہو سکتا ہے: مزید جنگ، مزید تشدد اور مزید ہمہ گیر تناؤ۔ وجہ بھی واضح ہے  اس جنگل میں جو امریکہ نے بنایا ہے، کوئی قانون نہیں، اور اپنی بقا کے لیے طاقتور ہونا پڑتا ہے۔

اسی حد سے بڑھی ہوئی عسکریت پسندی کے نتیجے میں آج ہم وسیع پیمانے پر جیوپولیٹیکل دراڑوں، بڑی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے مقابلوں، میزائلوں، جوہری ذخائر اور جارحانہ ہتھیاروں کی ترقی، امن پسند ٹیکنالوجیز جیسے معمولی مواصلاتی آلات کی عسکریت سازی، علاقائی درمیانی طاقتوں کے سرحد پار تنازعات، بین الاقوامی اور علاقائی نظم و نسق میں کئی سطحوں پر انتشار، ممالک کے درمیان معاشی، ثقافتی اور حتیٰ کہ عسکری ہم آہنگی میں کمی اور سب سے بڑھ کر سفارت کاری کے حاشیہ بردار ہونے کے گواہ ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جب 23 خرداد (13 جون) کو امریکی صدر کے حکم و هدایت پر اسرائیلی رژیم نے ایران پر حملہ کیا، تو اس جنگ کے پہلے دھماکے دراصل ایران اور امریکہ کی مذاکراتی میز پر کیے گئے۔ یہ وہ مذاکرات تھے جن کے پانچ دور مکمل ہو چکے تھے اور چھٹا دور دو دن بعد یعنی 25 خرداد کو ہونا تھا۔ یوں 12 روزہ جنگ کا پہلا شکار سفارت کاری بنی۔

معزز حضرات!


مغربی ایشیا کا خطّہ، جو دنیا کے بین الاقوامی ترین خطّوں میں شمار ہوتا ہے، اس المناک صورتِ حال کا سب سے بڑا شکار ہے، اور اس کے حالات براہِ راست انہی مذکورہ عالمی رویوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خطّے کی تبدیلیاں خاص طور پر گزشتہ دو برسوں کے دوران امن اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ان خطرناک رجحانات کا مکمل آئینہ بن چکی ہیں۔

کسی پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ تل آویو کا رژیم، جو مغربی ایشیا میں امریکہ کا کارگزار اور ذیلی بازو ہے، کس طرح بین الاقوامی قانون کی بنیادی ترین اصولوں پر حملہ کرتے ہوئے اپنی لامتناہی اور خطرناک جیوپولیٹیکل خواہشات کا پیچھا کرتا ہے۔ یہ رژیم، واشنگٹن اور بعض یورپی ممالک کی کھلی حمایت، نیٹو اور مغربی اسلحہ اور اربوں ڈالر کے فوجی سازوسامان, اور بین الاقوامی اداروں میں انہیں دی گئی مصونیت کے سہارے، انسانیت کے خلاف بدترین جرائم قتل عام اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے اور اب تک جاری رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ دو برسوں میں اس رژیم نے سات ممالک پر حملہ کیا، فلسطین کے علاوہ لبنان اور شام سمیت کئی ممالک کے نئے علاقوں پر قبضہ جمایا، اور ڈھٹائی کے ساتھ مغربی ایشیا کے نظمِ نو اور "گریٹر اسرائیل" جیسے منصوبے کی بات کرتا پھر رہا ہے۔ آج یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ مغربی ایشیا کا کوئی بھی ملک اس رژیم کی فوجی اور سکیورٹی تسلط پسندی کے عزائم سے محفوظ نہیں۔

خواتین و حضرات!

اسی منطق کے تحت، اور اپنے وہمی و خواہشاتی جیوپولیٹیکل منصوبوں کے فریم ورک میں، اسرائیلی رژیم نے جیسا کہ حال ہی میں امریکی صدر نے بھی اعتراف کیا—امریکہ کی براہِ راست ہدایت اور حکم پر، ۲۳ خرداد (۱۳ جون) کی آدھی رات کو، یعنی مسقط میں چھٹے دور کے ایٹمی مذاکرات سے صرف دو دن قبل، سفارت کاری اور پُرامن طریقے سے ممکنہ معاہدے کے راستے پر شبخون مارا۔

ایرانی سرزمین پر صہیونی رژیم کی جارحیت، متعدد نہتے شہریوں کی شہادت، کمانڈروں کا ان کے گھروں میں قتل، اور ایران کی پُرامن ایٹمی تنصیبات پر حملے یہ سب نہ صرف بین الاقوامی قانون کے بنیادی ترین اصولوں اور اقوام متحدہ کے منشور کی متعدد دفعات کی کھلی خلاف ورزی ہیں، بلکہ نظامِ پادمان اور عدمِ اشاعہ پر ایک مکمل اور سنگین حملہ بھی ہیں۔

امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے المیے کی اسیّویں سالگرہ پر، ایران کی سرزمین پر ایجنسی کی نگرانی میں موجود پُرامن جوہری مراکز پر جارحانہ، باغیانہ اور شدید غیر ذمہ دارانہ حملے کرکے ایک اور جرم کا ارتکاب کیا، اور ایک بار پھر عالمی امن و سلامتی کے لیۓ ایک خطرے کے طور پر سامنے آیا۔     

اسلامی جمہوریہ ایران نے، غیرقانونی جارحیت کے مقابلے میں اپنی سرزمین اور اپنے عوام کے جائز حقِ دفاع کی بنیاد پر، نہ صرف حملہ آوروں کو روک دیا، بلکہ انہیں سنگین اور دندانشکن ضربیں لگا کر یہ ثابت کیا کہ اگرچہ ایران ایک امن پسند ملت ہے، مگر جنگ کے نازک لمحے میں آخر تک کھڑا ہوتا ہے اور ظالم و جابر کو پشیمان کر کے چھوڑتا ہے۔

سب نے دیکھا کہ کس طرح صرف 9 دنوں میں "بلاشرط تسلیم" کا پیغام بدل کر "بلاشرط جنگ بندی" کی درخواست میں تبدیل ہوا، اور ایرانی ملت اور نظام کے بارے میں ابتدائی توہمّات یکسر مٹ گئے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کا رویّہ، جو اقوام متحدہ کے بانی اراکین میں سے ہے، ہمیشہ پوری طرح بین الاقوامی قانون سے مطابقت رکھتا آیا ہے۔ ایران کا ایٹمی‌پروگرام بنیادی طور پر این پی ٹی کی شق 4 میں تسلیم شدہ ہمارے حقوق پر استوار ہے۔ پُرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کی ترقی، بشمول یورینیم افزودگی، ملتِ ایران کا ناقابلِ سلب حق ہےاور ہم نے کبھی اس حق سے دستبرداری اختیار نہیں کی۔ ایران طویل عرصے تک ایجنسی کے جامع ترین معائنے کے تحت رہا اور تمام ٹکنیکی ذمہ داریوں پر مکمل طور پر عمل پیرا تھا۔

2015 کے جوہری معاہدے کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ ایران نے برجام اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اپنی تمام ذمہ داریوں پر پورا عمل کیا، اور ایجنسی کی مسلسل 15 رپورٹس اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ یہ امریکہ تھا جس نے یکطرفہ، اور بغیر کسی وجہ کے، اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی نہ کہ ایران۔ اگر واشنگٹن اپنی ذمہ داریوں پر قائم رہتا تو آج صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔

اسرائیل اور امریکہ کی جارحیت کے جواب میں ایران کی کارروائی اقوام متحدہ کے منشور کی شق 51 کے مطابق، یعنی "ذاتی حقِ دفاعِ مشروع" کے تحت انجام دی گئی۔ ہماری دفاعی کارروائیاں ضرورت، تناسب اور فوجی و غیر فوجی اہداف کے درمیان امتیاز کے اصولوں کو مدنظر رکھـ کر ڈیزائن کی گئیں۔

ایران نے حتیٰ دھمکی اور جارحیت کی انتہا کے ماحول میں بھی بین الاقوامی انسانی قوانین کی مکمل پاسداری کی۔ اس کے برعکس، اسرائیلی رژیم ذرا سی بہانے پر سینکڑوں بےگناہ شہریوں کو قتل کرتی ہے، مگر ایران کی کوئی بھی کارروائی نہ تو شہری علاقوں پر تھی اور نہ ہی غیرنظامی افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کیا ہے کہ ہر بحران اور ہر تنازع میں اس کا راستہ بین‌الاقوامی قانون اور قواعد  ہے، حالانکہ حملہ آور قوتیں اقوام متحدہ کے منشور، عدمِ اشاعہ کے نظام، انصاف کے اصولوں، اور حتیٰ کہ بین الاقوامی قواعدِ آمرہ کو بھی دنیا کی آنکھوں کے سامنے پامال کرتی رہی ہیں۔

خواتین و حضرات!
اگرچہ بین الاقوامی قانون بےرحمانہ حملوں کی زد میں ہے، مگر یہ اب بھی زندہ ہے لیکن اس شرط کے ساتھـ کہ ہم سب اس کا دفاع کریں۔ جو چیلنجز میں نے پہلے بیان کیے، انہی کے اندر بڑی مواقع بھی پوشیدہ ہیں: موجودہ نازک صورتحال سے متعلق عالمی اور علاقائی بیداری, اور شمولیت، غیر عسکریت پسندی اور مشترکہ مفادات پر مبنی تعاون کے لیے ابھرتا ہوا بین الاقوامی عزم انہی میں شامل ہیں۔

ہم سب کو اُس نقطۂ نظر کی طرف لوٹنا ہوگا جس کی بنیاد قانون کی بالادستی, زور اور تجاوز کی ممانعت, اور منشورِ ملل متحد کے جوہر کی تقویت پر ہے۔ اگر آج اس خطرناک رجحان قانون شکنی، قانون سے ماوراء رویّوں اور طاقت کے برملا استعمال— کو نا روکا گیا، تو مستقبل میں ہم سب کو اس سے کہیں تلخ تجربات دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔

دنیا اور خطّہ آج دو راستوں کے سنگم پر کھڑے ہیں:
ایک طرف تسلط پسندی، برتری جویی، ہژمونی، طاقت کے استعمال، سکیورٹیائزیشن، عسکریت پسندی، جنگ اور تشدد یعنی ایک لفظ میں قانونِ جنگل؛
اور دوسری طرف قانون اور عالمگیر بین الاقوامی اصولوں پر مبنی بات چیت, مساوات اور ہمگرائی, گفت‌وگو، صلح اور اجتماعی تعاون کا راستہ۔

اسلامی جمہوریہ ایران دوسرے راستے پر یقین رکھتا ہے اور عالمی نظم کو ایک قانون محور نظام کی طرف واپس لانے کے لیے، نیز گلوبل ساوتھـ اور ذمہ دار حکومتوں کے ساتھـ تعاون میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

اپنے پیرامونی خطّے میں، ایران ایک مضبوط، پُرامن، برادرانہ اور سمجھِـ مشترک پر مبنی خطّے کا خواہاں ہے۔ ہمیں ایک شمولیت پر مبنی علاقائی چاره جوئی اور پالیسی کی ضرورت ہے جو تمام ممالک کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے۔

اسلامی جمہوریہ ایران، خطّے کے ممالک کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ پائیدار اعتماد اس نئے علاقائی ماحول کا مرکز و محور ہو۔ ہم سب کو اس خطّے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے، امن، سلامتی، خوشحالی اور ہمگرائی کے لیے ایک نئی ڈاکٹراین وضع کرنی ہوگی۔

اپنے رفقا کا مرکزِ مطالعات میں خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے، مجھے امید ہے کہ آج کی کانفرنس اس گفتگو کے نظری اور عملی بنیادوں کو مزید مضبوط بنانے میں مدد دے گی۔

آپ کی توجہ کا بہت شکریہ۔

 

 

متن دیدگاه
نظرات کاربران
تاکنون نظری ثبت نشده است

امتیاز شما